الہ آباد ہائی کورٹ نے مسلم شوہر کی طرف سے بیوی کو تین طلاق دئے جانے کے
بعد درج جہیز مظالم کے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے تین طلاق اور فتوے پر اہم
تبصرہ کیا ہے۔ ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ کوئی بھی پرسنل لاء آئین سے اوپر
نہیں ہے۔ ہائی کورٹ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرسنل لاء کے نام پر مسلم
خواتین سمیت تمام شہریوں کو حاصل آرٹیکل 14، 15 اور 21 کے اصل حقوق کی
خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی ہے۔ کورٹ نے کہا کہ جس معاشرے میں خواتین کا
احترام نہیں ہوتا ہے، اسے مہذب معاشرہ نہیں کہا جا سکتا۔ کورٹ نے یہ بھی
کہا ہے کہ جنس کی بنیاد پر بھی اصل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی
جا سکتی۔
کورٹ نے کہا کہ کوئی بھی مسلم شوہر ایسے طریقے سے طلاق
نہیں دے سکتا ہے، جس
سے مساوات اور زندگی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہو۔ ہائی کورٹ نے
کہا ہے کہ کوئی بھی پرسنل لاء آئین کے دائرے میں ہی لاگو ہو سکتا ہے۔ فتوے
پر عدالت نے کہا کہ ایسا کوئی فتوی درست نہیں ہے جو نظام عدل کے برعکس ہو۔
ہائی کورٹ نے تین طلاق کی شکار وارانسی کی سماليا کی طرف سے شوہر عقیل جمیل
کے خلاف درج جہیز ہراساں کیس کو منسوخ کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ یہ
حکم جسٹس ایس پی كیسروانی کی واحد بنچ نے عقیل جمیل کی درخواست کو مسترد
کرتے ہوئے دیا ہے۔
عقیل جمیل کا کہنا تھا کہ اس نے بیوی سماليا کو طلاق دے دی ہے اور
دارالعلوم افتا جامع مسجد آگرہ سے فتوی بھی لے لیا ہے۔ اس بنیاد پر اس پر
جہیز تشدد کا درج مقدمہ رد ہونا چاہئے۔